یا اللہ ، یا غفورُ ، یا کریم ، ان تین ناموں کو اکٹھا پڑھ لیں ، ایسا معجزہ پیش آئے گا

یا اللہ ، یا غفورُ

ڈیلی کائنات! آج کا وظیفہ بہت آسان اور مجرب ہے اس وظیفے می بہت اہمیت ہے اگر آپ اس وظیفے کو یقین کے ساتھ کریں گے تو انشاء اللہ آپ کو بہت فائدہ ہو گا آج اس وظیفے کے کرنے سے آپ کی بیماری جڑ سے ختم ہو جائے گی بہت سے ایسے لوگ ہے جو ایک مسلے سے نکلتے ہیں اور دوسری بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں ہر بیماری سے نجات پانے کے لیے آج ہم آپ کو بہت بابرکت وظیفہ بتائے گے

اگر آپ اس عمل کو پووی توجہ اور یقین کے ساتھ کریں گے تو اللہ پاک آپ کے گھر سے۔ رزق اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی نعمت جس کی تقسیم کااختیار اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہے ایک منظم ضابطے کے مطابق اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوقات کو اپنے وقت پر رزق پہنچاتا ہے چاہے وہ زمین پر چلنے اور رینگنے والے جاندار ہوں یا سمند ر کی تاریکیوں بسنے والے جاندار ہوں یا پہاڑوں کی چوٹیوں پر رہنے جاندار اللہ تعالیٰ کسی نہیں بھولتا جیسے سورۃ ہود میں ارشاد باری تعالیٰ زمین پر کوئی ایسا جاندار نہیں ہے جس کا رزق اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ نہ لے رکھا ہو ۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر لطف وکرم فرمانے والا ہے اور وہ جسے چاہتا رزق دیتا ہے چنانچہ اگر کسی کو روزی کم ملےاور سرے سے نہ ہی ملے تو

اس کو اس آیت کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ رزق کم ملنے یا بلکل نہ ملنے میں اس کا کرم اور کو ئی حکمت پوشیدہ ہے اور رزق میں جو کمی بیشی ہوتی ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوتی ہے جیسے سورۃ بنی اسرائیل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ بے شک تمہارا رب جسے چاہے رزق کشادہ دیتا ہے اور جسے چاہے کم دیتا ہے بے شک وہ اپنے بندوں کو خوب جانتا اور ان کے احوال کو دیکھتا ہے ۔ مگر یہ بات یہاں یاد رہے کہ رزق میں کمی نہ تو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی دلیل ہے اور نہ تو رزق میں زیادتی اللہ تعالیٰ کی رضا کی دلیل ہے بلکہ یہ تو امتحان اور آزمائش کے طور پر ہوتا ہے ۔ لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ گنہگار کے رزق میں وسعت ہوتی ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے نیک وفرمانبردار کے رزق میں تنگی بھی ہوتی ہے ۔

ان قرآنی آیات میں روشنی جان لینے کے بعد رزق میں خوشحالی اور تنگی لانے کا تنہا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اس کے سوا اور کوئی نہیں ۔ ان پانچ چیزوں میں سے پہلی چیز ہے تقویٰ اختیار کرنا یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنا تقویٰ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل اور شرعاً ممنوع چیزوں سے اجتناب کا نام ہے ۔ تقویٰ ان امور سے ایک ہے جن سے رزق میں برکت ہوتی ہے ۔ جیسے سورۃ طلاق میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ سے ڈرے گا اللہ تعالیٰ اس کیلئے راہ نکال لے گا اور اس کو وہاں سے رزق دے گا جہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہوگا۔ اسی طرح سورۃ الاحرا میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم آسمان وزمین کی برکتوں کے دروازے ان پر کھول دیتے لیکن

انہوں نے جھٹلایا اسی لیے ہم نے ان کی کمائی کی پاداش میں انہیں پکڑلیا برکت کا مطلب دولت کی کثرت نہیں بلکہ کفایت ہے یعنی ضرورت کے وقت کافی ہوجانا ہے۔ بہت سے لوگ کثرت مال کے باوجود معاشی تنگی کا رونہ روتے رہتے ہیں اور معاشی طور پر بظاہر درمیانے درجے کے متعدد لوگ انتہائی اطمینان سے زندگی گزارتے ہیں یہ فرق صرف برکت کی وجہ سے ہے دوسری چیز ہے عبادت میں انحماق اس سے مراد یہ ہے کہ عبادت کے دوران بندے کا دل اور جسم دونوں حاضر ہیں اللہ تعالیٰ کے حضور میں خشووخضو کا پاس رکھے اللہ تعالیٰ کی عظمت ہمیشہ اسکے دل ودماغ میں حاضر ہے ۔حدیث مبارکہ میں ہے حضرت ابوہریرہ ؓ روایت فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ

اے ابن عادم ؑ میری عبادت میں منہمک رہو میں تیرے دل غناء سے بھر دوں گا اور تمہاری محتاجی کا دروازہ بند کروں گا اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو تمہارے ہاتھوں کو کثرت مشاغل سے بھردوں گا اور تمہاری محتاجی کا دروازہ بند نہیں کروں گا۔ تیسری چیز ہے کہ توبہ واستغفار قرآن میں کئی جگہ توبہ واستغفار کے ذریعے رزق میں برکت اور دولت میں فراوانی کا ذکر ہے ۔ سورۃ نوح میں حضرت نوح ؑ کا قول نقل کیا گیاہے کہ میں نے اپنی قوم سے کہا اپنے رب سے معافی مانگو بلاشبہ وہ بڑابخشنے والا ہے وہ تم پر خوب بارش برسائے گا تمہیں مال واولاد کی فراوانی بخشے گا تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور نہریں جاری کرے گا حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا جو شخص بکثرت استغفار کرتا ہے

اللہ تعالیٰ اس کو ہر غم سے چھٹکارہ اور ہر تنگی سے کشادگی عنایت کرتے ہیں اور اس سے ایسی راہوں سے رزق عطا کرتے ہیں جس کا اس کے ذہن وگمان میں گزر تک نہیں ہوتا توبہ واستغفار کی حقیقت یہ ہے کہ انسان گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنے کیے پر شرمندہ ہو اور آئندہ طرق گناہ کا پختہ عزم کرے اور جہاں تک ممکن ہو اعمال خیر سے اس کا تدارک کرےاگر گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہو تو اس کی توبہ کیلئے ایک شرط یہ بھی ہے صاحب حق سے معاملہ صاف کرے ان شرائط کے بغیر توبہ بے حقیقت ہے ۔ چوتھی چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا رزق میں برکت کا ایک بہت بڑا ذریعہ شکر ہے ۔ جیسے سورۃ ابراہیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اگر تم شکر کرو گے تو وہ تمہیں اور زیادہ عطاء کرے گا ۔

اور اگر تم شکر نہیں کرو گے یعنی کفران ِ نعمت کروگے تو پھر میرا عذاب بہت سخت ہے ۔ یہاں پر حضرت موسیٰ ؑ کا واقعہ آپ کو سناتے ہیں ۔ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ ؑ کوہِ طور پر اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کیلئے روانہ ہوئے تو راستے میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی اللہ تعالیٰ نے اس کو رزق کافی فراوانہ عطاکررکھی تھی ۔ اُس نے حضرت موسیٰؑ سے عرض کی اے رسول خدا میرے رب سے میرے متعلق دریافت کیجئے گا میرے لیے کیا حکم ہے میرے پاس اتنا رزق ہے کہ سنبھالے نہیں سنبھل رہا موسیٰ ؑ ذرا آگے روانہ ہوئے اور ایک ایسے شخص کو دیکھا جس نے ریت سے اپنا جسم ڈھانپ رکھا تھا اس نے حضرت موسیٰ ؑ سے فرمایا اے کلیم اللہ میرے رب سے میری کیفیت بھی عرض کیجئے گا ۔حضرت موسیٰ ؑ کوہِ طور پر پہنچے اور پہلے والے دریافت کیا

اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ اس سے کہو ہماری ناشکری کرے تو اسکے مال میں تنگی ہوجائیگی ۔ تو جب دوسرے کے متعلق پوچھا تو اس سے کہو ہمارا شکر گزار بن جائے اس کے مال میں فراوانی ہوجائیگی ۔ حضرت موسیٰ ؑ نے واپس آتے ہوئے پہلے والے آدمی سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میری ناشکری کرو تو رزق کمی واقع ہوجائیگی ۔ اس نے آنکھوں میں آنسوبھرتے ہوئے کہا اے موسیٰ ؑ میں اتنا کچھ دینے والے رب کا ناشکرا بندہ نہیں بن سکتا ہوں آپ آگے چلے اور دوسرے آدمی سے ملکر کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے کہ میرا شکر ادا کرو اس نے انتہائی مایوسی سے جواب دیا کہ کس بات کا شکر میرے پاس ایسا کیا ہے کہ شکر ادا کیا جائے ابھی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ ہوا چلی

اور اس کے جسم پر ریت بھی اُڑ گئی جس نے اس کے جسم کو ڈھانپ رکھا تھا۔ پانچویں چیز ہے صدقہ کرنا سورۃ صباء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ جو کوئی چیز بھی تم خرچ کرتے ہو تو وہی اس کا عیوض دیتا ہے اور وہی بہتر روضی دینے والا ہے ۔ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ صدقہ دے کر رب سے تجارت کرلو صدقے سے تمہارے رزق میں اضافہ ہوگا۔شکریہ

اپنی رائے کا اظہار کریں