رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس دعا کے پڑھنے والے کومعافی مل جاتی ہے

دعا

گناہوں سے معافی: انسان کے گناہ خواہ ریت کے ذروں کے برابر ہوں یا بحرِ بیکراں کے قطرات سے زائد ہوں تو بھی استغفار سے سب محو ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:۔ «یا ابن آدم ما دعوتني ورجوتني غفرت لك ما کان فیك ولا أبالي یا ابن آدم لو بلغت ذنوبك عنان السماء ثم استغفرتني غفرت لك ولا أبالي یا ابن آدم أنك لو لقیتني بقراب الأرض خطا یا ثم لقیتني لا تشرك بي شیئا لأ تیتك بقرابھا مغفرة» (ترمذی) اے ابن آدمتو جب تک مجھ سے دعا کرے گا

اور امید رکھے گا تیرے جو گناہ بھی ہوں گے معاف کر دونگا اور مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں۔ اے آدم کے بیٹے! اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں تک پہنچ جائیں پھر تو مجھ سے معافی مانگے تو بھی میں تجھے گناہوں سے معافی دونگا، اور مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ اے ابن آدم! اگر تو زمین کے برابر گناہ لایا لیکن شرک نہ کیا تو میں اتنی ہی مغفرت اور بخشش لے کر تیرے پاس آؤں گا۔ صفائی قلب: جس طرح لوہا پانی میں پڑا رہنے سے زنگ خوردہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح انسانی قلوب گناہوں کی نجاست سے آلودہ ہونے کے باعث زنگ خوردہ اور سیاہی آلود ہو جاتے ہیں۔ ایسے وقت استغفار کی ریتی ہی اس زنگ کو دور کر کے چمکا سکتی ہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ کیایک طویل حدیث ہے جس کے آخر میں یہ ذکر ہے: «فإن تاب واستغفر صقل قلبه» (ترمذی) یعنی اگر انسان توبہ کر لے اور اپنے گناہوں سے معافی مانگے

تو اس سے اس کا قلب چمک اُٹھتا ہے۔ موجبِ جنت: ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے استغفار کا ذِکر فرمایا اور اس کی فضیلت ذکر کرتے ہوئے فرمایا: «فمن قالھا من النھار موقنا بھا فمات من یومه قبل أن یمسي فھو من أھل الجنة ومن قالھا من اللیل موقنا بھا فمات قبل أن یصبح فھو من أھل الجنة» (بخاری) جو آدمی یقین کے ساتھ دن کو سید الإ ستغفار پڑھتا ہے اور شام سے پہلے فوت ہو جاتا ہے تو وہ اہلِ جنت سے ہے اور جو رات کو یقین کے ساتھ پڑھتا ہے اور صبح سے پیشتر ہی وفات پا جاتا ہے تو وہ بھی اہلِ جنت سے ہے۔پریشانی اور تنگیٔ رزق سے نجات: آنحضرت ﷺ نے تنگ دستی اور ذہنی و قلبی پریشانی میں مبتلا اشخاص کو یہ مژدۂ جاں فزا سنایا۔ «من لزم الا ستغفار جعل اللہ له من کل ضیق مخرجا ومن کل ھم فرجا ورزقه اللہ من حیث لا یحتسب» (احمد، ابو داود) جو انسان استغفار کو ہمیشہ کے لئے اپنا وظیفہ بنا لیتا ہے

تو اللہ تعالیٰ اس کی ہر قسم کی تنگی اور پریشانی کو دور کرتا ہے اور اسے ایسے ذریعے سے رزق عطا کرتا ہے جس کا اسے وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ میت کے لئے استغفار: نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں: «إن اللہ عزوجل لیرفع الدرجة للعبد الصالح في الجنة فیقول یا رب أنی لي ھذا فیقول باستغفار ولدك لك» (احمد) اللہ رب العزت اپنے نیک بندوں کا جنت میں مرتبہ بڑھائیں گے۔انسان کہے گا کہ اے میرے پروردگار! یہ درجہ مجھے کیسے نصیب ہوا؟ اللہ تعالیٰ جواب فرمائیں گے کہ تیرا لڑکا تیرے لئے استغفار کرتا رہا ہے۔ اس لئے تجھے یہ بلند درجہ نصیب ہوا مردوں کے لئے بہترین تحفہ: آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ: ”قبر میں میت کی مثال اس غرض ہونے والے کی ہے جو امداد کا طالب ہوتا ہے۔ جب اس کی بخشش کی دعا کی جاتی ہے اور اس کے لئے استغفار کی جاتی ہے و وہ دنیا کی تمام اشیاء سے اسے محبوب ہوتی ہے۔” پھر فرمایا: ”اللہ عالیٰ اہل زمین کی دعا کی برکت سے اہلِ قبور پر پہاڑوں کی مانند رحمتیں نازل فرماتا ہے۔” پھر آخر میں فرمایا: «إن ھدیة ا لأ حیاء إلی الأموات الاستغفار لھم» (بیہقی) کہ جو لوگ بقیدِ حیات ہیں ان کا تحفہ مردوں کے لئے یہ ہے کہ ان کے حق میں بخشش کی دعا کریں۔

اپنی رائے کا اظہار کریں